Pasrur
پسرُور | |
---|---|
City | |
Pasrur | |
Coordinates: 32°10′N 74°24′E / 32.16°N 74.40°E | |
Country | Pakistan |
Province | Punjab |
District | Sialkot |
Government | |
• Assistant Commissioner | Aliyas Cheema |
Elevation | 238 m (781 ft) |
Population | |
• Total | 54,771 |
Time zone | UTC+5 (PST) |
Number of Union councils | 2 |
Pasrur (Template:Lang-ur), is a city of Sialkot District in the Punjab province of Pakistan. The city is the capital of Pasrur Tehsil and is administratively subdivided into two Union councils.[1]
It is located at 32°16'0N 74°40'0E with an altitude of 238 metres (784 feet).[2] The nearest big cities are Sialkot, Narowal and Gujranwala.
History
after Paras Ram, Brahman, to whom the town was assigned by its founder. Pasrur is mentioned by Mughal Emperor Babar in Baburnama as a halting-place between Sialkot and Kalanaur, and seems to have once been of considerable importance. It possesses a large tank, constructed in the reign of Mughal Emperor Jahangir. To feed this, Dara Shikoh dug a canal, traces of which are still extant. Nearby are the remains of a bridge built by Shah Daula.[3] The Rajput population and the former Rajput states are found spread through much of South Asia, particularly in north, west and central Sialkot in Punjab.
کتوب پسرور محمد پرویز باجوہ پسرور 1300سال قدیم شہر ہے اس کے مشرق میں ضلع نارووال،مغرب میں تحصیل ڈسکہ ،شمال میں مقبوضہ جموں وکشمیر اور جنوب میں ضلع گوجرانوالہ کا علاقہ واقع ہے۔ تحصیل پسرورکی موجودہ آبادی ایک اندازے کے مطابق 12لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے جبکہ شہر کی آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ تحصیل پسرور میں ایک میونسپل کمیٹی،100پٹوار سرکلز اور 34یونین کونسلز شامل ہیں زرعی اراضی 2لاکھ 40ہزار9سوگیارہ ایکڑ جبکہ سرکاری اراضی 5ہزار 2سو اکسٹھ ایکڑ ہے تحصیل پسرور کے دیہات کی تعداد597ہے ان میں سے 528 دیہات کی اراضی کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے جبکہ پسرور،چونڈہ،بڈیانہ ،قلعہ کالر والا سمیت 69مواضعات تاحال کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوسکے۔ تاریخی کتابوں میں لکھا ہے کہ پسرور ،نارووال، کلاسوالا، چونڈہ اور رڑکی کو جٹ باجوہ قوم کے افراد نے آباد کیا پسرور کا بانی پرس رام کو قرار دیا جاتا ہے اور ماضی میں اس کا نام پُرسُرور تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ پسرور ہو گیا پسرور کا ذکر مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی کتاب تُزک بابری میں کیا ہے وہ کابل سے دہلی جاتے ہوئے ایک رات کے لیئے پسرور میں ٹھیرا تھا یہاں اس نے پنجاب کے روسا سے ملاقات کی تھی ہمایوں دو بار پسرور آیا 1540میں جب اسے شیر شاہ سوری نے شکست دی تو ہمایوں فقیر کے بھیس میں پسرور آیا وہ یہاں سے کشمیر جانا چاہتا تھا اس نے حضرت جلال شاہ بخاری کے مزار پر فاتحہ خوانی کی وہاں اسے فقیر سمجھ کر ایک ہندو ساہوکار کے بیٹے مٹیکا نے ایک اشرفی دی جس پر ہمایوں نے اسے غور سے دیکھا اور اشرفی نہ لی 15سال بعد جب ہمایوں نے شیر شاہ سوری کے بیٹے کو شکست دے کر ہندوستان کا اقتدار دوبارہ حاصل کیا تو وہ دوسری بار پسرور آیا اس بار وہ شاہی لباس میں تھا اور اس کے آگے پیچھے گھڑ سواروں اور پیدل سپاہ کا حفاظتی دستہ تھا اسے دیکھنے کے لیئے شہر امڈ آیا ہمایوں نے اعلان کیا کہ 15سال قبل اسے ایک نوجوان نے اشرفی دینے کی کوشش کی تھی مٹیکا ڈرتا ڈرتا آگے بڑھا ہمایوں نے اسے پسرور کا حاکم بنا دیا مغلوں نے پسرور میں موجود بڑی غلہ منڈی ہونے کی وجہ سے اسے پرگنہ کا درجہ دیا گجرات میں مدفون روحانی بزرگ شاہ دولہ نے یہاں پینے کے پانی کی کمی دور کرنے کے لیئے کچا تالاب بنوایا ،شہزادہ دارا شکوہ نے ہشت پہلو تالاب بنوایا اس تالاب میں پانی نالہ ڈیک سے نہر کھدوا کر لایا گیا یہ نہر چرونڈ کے مقام سے نکالی گئی تھی جو موجودہ شہزادہ روڈ کی جگہ بہتی تھی انگریزوں نے اسے 1867میں میونسپلٹی اور بعد ازاں تحصیل کا درجہ دیا 1901میں پسرور شہر کی آبادی 8335اور قیام پاکستان کے وقت 10ہزار سے زائد تھی 1902-3سال کے دوران مونسپل کمیٹی پسرور کی آمدن 7900جبکہ اخراجات7800روپے سالانہ تھے سیالکوٹ اور گجرات سے لوگ امرتسر جاتے ہوئے پسرور سے گزرتے تھے موجودہ پسرور ڈھوڈا روڈ ماضی میں سیالکوٹ امرتسر روڈ تھی۔ معروف مورخ محمد اختر چشتی کے بقول قیام پاکستان سے قبل پسرور کو دیگر علاقوں سے ملانے والی سڑکیں کچی تھیں 1918میں پسرور میں ریلوے لائین بچھائی گئی تاہم پسرور سے سیالکوٹ جانے کے لیئے ٹرین کے ساتھ ساتھ نندا کمپنی کی بس،تانگے اور سائیکل کام آتے تھے بعض لوگ گھوڑوں پر سوار ہو کر بھی سفر کرتے تھے۔ پسرور میں بجلی1958میں آئی 1965کی جنگ میں پسرور کے قصبہ چونڈہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی ہوئی جس میں پاکستان کو فتح حاصل ہوئی۔ جس کی وجہ ،1971میں یہاں اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی ہوئی قبل ازیں تحصیلدار ہی انتظامی آفیسر تھا ۔1987میں یہاں گورنمنٹ ڈگری کالج فار بوائز اور گورنمنٹ ڈگری کالج فار گرلز کو ڈگری کالجز کا درجہ مل گیا ۔پسرور میں ماضی میں ممتاز دولتانہ،محمد سرفراز،کوثر نیازی ،صاحبزادہ محمد احمد ،چودھری عبدالستار ،سکندر ملہی اور زاہد حامد قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوتے رہے ہیں چودھری بشیر احمد ، لالہ نصیر احمد،اقبال کھوکھر، غلام احمد ،رانا لیاقت علی ،نصیر خان اختر حسین رضوی ، ڈاکٹر تنویر اسلام ،ملک امان اللہ ،غلام عباس ,منور گل اور رانا محمد افضل یہاں سے ایم پی اے منتخب ہوئے ۔جبکہ یہاں محبوب عالم،میاں ابراہیم المعروف میاں کاکا میاں حامد نواز ،شیخ محمد رفیق،محمد اقبال کھوکھر،چودھری اعجاز احمد ، اورسیٹھ مقبول احمدچئیرمین کی مسند پر فائز رہے ہیں۔ رانا لیاقت علی مسلم لیگ ن جرمنی کے صدر ہیں اور ترقیاتی منصوبہ جات میں کمیشن نہیں لیتے اور ہر سال ہزاروں مستحق لوگوں میں راشن بیگز تقسیم کرنے کی وجہ سے معروف ہیں بارڈر ایریا پر جب بھارت بلااشتعال فائرنگ اور شیلنگ کرتا ہے تو رانا لیاقت علی بھارتی شیلنگ سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیئے پہنچ جاتے ہیں ۔پاکستان آرمی کے سابق لیفٹیننٹ جنرل محمد صفدر،سابق ایم این اے بریگڈیئر حامد نواز،ان کے صاحبزادگان شاہد حامد اور زاہد حامد ، سابق امیر جماعت اسلامی حکیم عبداللطیف،پاکستان میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی ٹیکنیک متعارف کروانے والے ڈاکٹر سعد رانا ،ممبر فیڈرل بورڈ آف ریونیو خواجہ محسن رضا،سیاسی و سماجی رہنما مرزا عبدالقیوم،ڈپٹی ڈی جی رینجرز پنجاب بریگڈیئر شاہد محمود،معروف پلاسٹک سرجن اورکنسلٹنٹ ڈاکٹر افضال باجوہ اور معروف فنکاروں رخسانہ نور ،بابرہ شریف ،میرا اوراکرم راہی کا تعلق تحصیل پسرور سے ہے مرزا عبدالقیوم الیکٹرانکس کے تاجر ہیں اور سماجی بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں انسان دوست اور ہمدرد رہنما ہیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا آبائی گاؤں اچا پہاڑنگ بھی تحصیل پسرور میں واقع ہے ۔پسرورکے عوام کو نکاسی آب،فراہمی آب،سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ،تجاوزات اور صحت وصفائی جیسے مسائل درپیش ہیں وفاقی وزیر زاہد حامد خان نے ان مسائل کے حل کے لیئے 38کروڑ روپے مختص کیئے ہیں جبکہ پسرور کوڈسکہ اور نارووال سے ملانے والی سڑکوں کی تعمیروکشادگی کی بھی منظوری دے دی گئی ہے پسرور سے سیالکوٹ تک دورویہ سڑک کی تعمیر کے لیئے3ارب40کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے دریں اثنا ٹھروہ منڈی میں 250بیڈز کا نواز شریف ہسپتال کی تعمیر اور کیڈٹ کالج میں ڈے سکالرز کے لیئے ایف ایس سی اور بی ایس کلاسز کے اجرا کی بھی منظوری دی جارہی ہے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد خان کے صاحبزادے علی زاہد خان تحصیل پسرور میں ترقیاتی منصوبہ جات کی تیزی سے تکمیل چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں متعلقہ اداروں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں وہ انتہائی متحرک ،فعال اور سرگرم سیاسی رہنما ہیں اپنی شاندار کارکردگی کی وجہ سے وہ عوام میں بہت جلد مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں دریں اثنا صوبائی پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد افضل کی کوششوں سے لہڑی پوسٹ ظفروال تا شیخوپورہ نالہ ڈیک کے کناروں پر بنا بنانے ،پسرور گوجرانوالہ روڈ،پسرور ڈھوڈا روڈ اور دھاریوال سے قلعہ احمد آباد براستہ تخت پور سڑکوں کی تعمیر کی منظوری ہوچکی ہے انہوں نے پسرور نارووال روڈ پر الکڑے پھاٹک تا قلعہ احمد آباد سڑک کے کناروں پر شجرکاری بھی کروائی ہے جس سے علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے ان دنوں چودھری الطاف شفیع چئیرمین میونسپل کمیٹی پسرور ہیں وہ صبح 8بجے میونسپل کمیٹی پہنچ جاتے ہیں جس کی وجہ سے کمیٹی کے سارے ملازم ریگولر ہو گئے ہیں اور بروقت ڈیوٹی پر حاضر ہوجاتے ہیں انہوں نے میونسپل کمیٹی میں کرپشن کی روک تھام کے لیئے بھی گرانقدر کوششیں کی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پسرور میں فوری طور پر پاسپورٹ آفس،سوئی نادرن گیس کمپنی کا سب آفس،ایک اور کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ آفس اور انڈسٹریل سٹیٹ بنائی جائے
British era
During British rule, Pasrur became the headquarters of Pasrur Tehsil. The town (which lies 18 miles south of the district capital Sialkot) lies on the Sialkot to Amritsar road. The population in 1901 was 8,335. The trade of Pasrur has become very decayed, partly through the opening of the North-Western Railway and partly on account of the octroi duties which have diverted trade to the neighboring village of Saukin Wind. Hand-printed cotton stuffs were the only manufacture of importance.
The municipality was created in 1867. The income during the ten years ending 1902-3 averaged Rs. 7,900, and the expenditure Rs. 7,800. The income in 1903-4 was Rs. 8,000, chiefly from octroi ; and the expenditure was Rs. 6,900. The town had an Anglo-vernacular high school maintained by the District board, and a Government dispensary.[3]
Independence of Pakistan
The predominantly Muslim population supported Muslim League and Pakistan Movement. After the independence of Pakistan in 1947, the minority Hindus and Sikhs migrated to India while many Muslim refugees from India settled in the Pasrur.
Indo-Pakistani War of 1965
During the Indo-Pakistani War of 1965,[4] an Indian Aircraft forced to land at the small Pasrur Airport at village Chand under pressure from Pakistani Aircraft following it. The Sikh pilot was captured and his GNAT aircraft was taken into custody of the Pakistan Air Force. Battle of Chawinda took place near Pasrur. On the 1st day of this war many Indian tanks reached near the Sialkot-Zafarwal road near village Dugri Harian. Suddenly few Pakistani Aircraft came and destroyed all the Indian tanks.
Education
Pasrur has government colleges and schools for girls and boys listed below, i) Govt. High School No. 1 ii) Govt. High School No. 2 iii) Govt. Girls High School. iv) Govt. Ayesha Sadeeqa Girls High School v) Govt. City Elementry School.(Separate Primary & Elememtry Parts) vi) Govt. Degree College For Boys vii) Govt. Girls Degree College while many private sector institutes are also working here. . Recently a Cadet College has been established in cantonment area. WebLink gcet-pasrur